تذکرہ

انتظار حسین

Artwork by Ifada Nisa

ہر زمین ہر آدمی کو راس نہیں آتی۔ بعض زمینیں اکل کھری ہوتی ہیں کہ اپنے کسی باسی کو بستے نہیں دیکھ سکتیں، اپنے اجاڑ پن میں خوش رہتی ہیں۔ بعض زمینیں زود حس ہوتی ہیں کہ بسنے والوں سے طبیعت میل کھا جائے تو ان پر کشادہ ہوکر انہیں نہال کر دیتی ہیں۔ طبیعت میل نہ کھائےتو ان پر تنگ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ مگر یہ آگاہی تو بعد کی بات ہے ان دنوںمجھے ان باتوں کا شعور کہاں تھا۔ میں توکبھی زمینوں کا مزاج داں نہیں رہا۔

میرے تو تصوّر میں بھی کبھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ زمین بھی محبت اور نفرت کر سکتی ہے۔ ہمیشہ یہی سمجھا کہ محبت اور نفرت آدمی کے مشغلے ہیں۔ اُن جذبوں سے زمین ناآشنا ہے زمین آدمی سے محبت نہیں کرتی۔ آدمی زمین سے محبت کرتا ہے اور کبھی کبھی تو اس طرح ٹوٹ کر کرتا ہے۔ جیسے زمین بھی عورت ہو، بلکہ عورت سے بڑھ کر عورت۔

تو میں نے اس طرح سوچا ہی نہیں تھا۔ میں نے تو قرعہ میں نکلنے والے پلاٹ کو اس زاویئے سے دیکھا تھا کہ وہ کونے کا پلاٹ ہے یا کہیں بیچ میں پھنسا ہوا ہے اور یہ کہ مین روڈ سے قریب رہے گا یا دور پڑے گا۔ زمین کے بھی جذبات ہوتے ہیں، وہ بھی خوش اور ناخوش ہوتی ہے یہ بوجان کا عرفان تھا۔ نئے گھر میں آکر پھر انہوںنے اپنے حساب سے تجویز پیش کیں۔

’’اے دلہن، نئے گھر میں آکے اس طرح تو نہیں بیٹھ جایا کرتے کہ نہ اللہ کا نام نہ رسولؐ کا کلمہ۔ ایسے گھر میں فرشتے قدم نہیں رکھتے۔‘‘

’’پھر بوجان، مٹھائی منگا کے نیاز دلائے دیتے ہیں۔‘‘

’’اے ہے دلہن، خالی نیاز دلا کے بیٹھ جائو گی۔ برادری کنبہ والے، ملنے جلنے والے کیا کہیں گے۔‘‘

’’پھر؟‘‘

’’پھر کیا؟ میلاد کرو کہ بیبیں جمع ہوں۔ کچھ اللہ رسولؐ کا ذکر ہو، کچھ بچوں بڑوں کی چہل پہل ہو۔ ہنسی خوشی کی آوازیں گونجیں، گھر میں اسی طرح خوشی رچتی بستی ہے۔‘‘

پھر بوجان نے چراغ حویلی کے کب کب کے قصّے سنا ڈالے کہ کس موقعہ پر کون سی خوشی کی تقریب ہوئی تھی اور اس میں کیا ڈھول ڈھمکا ہوا تھا۔ کتنے دنوں کے بعد بوجان کی زبان کھلی تھی ورنہ چراغ حویلی سے نکل کر تو انہیں چپ لگ گئی تھی۔ وہاں وہ کتنا چہکتی بولتی رہتی تھیں۔ یہاں آکر ساری چہک مہک رخصت ہوگئی تھی۔بس نئے مکان میں قدم رکھا اور زبان کھل گئی ۔۔۔ شاید اپنے مکان میں بیٹھ کر ان میں حوصلہ پیدا ہوگیا تھا۔ گیا ہوا اعتماد بحال ہوگیا۔ کتنی رات تک چرکتی رہیں۔ چراغ حویلی اچانک ان کے تصوّر میں جی اُٹھی تھی۔

’’میاں جان سنایا کرتے تھے کہ جب چراغ حویلی بنی تھی تو چاندی کی طشتریوںمیں بالوشاہئیں بٹی تھیں۔ برادری کے ہر جنے کو ایک ایک چاندی کی طشتری میں دو دو بالو شاہی بھیجی گئی تھی اور بی بی ڈیوڑھی میں نوبت رکھی گئی تھی۔ چالیس دن تک نوبت بجی۔ نوبت بجانے والے کو جامدانی کے انگرکھے کے ساتھ پورا جوڑا دیا تھا۔‘‘

’’بوجان، چراغ حویلی کب بنی تھی؟‘‘

’’بیٹے، یہ تو مجھے پتہ نہیں۔ میرے تو اس گھر میں آنے سے پہلے کی بات ہے۔ تمہارے لکڑ دادا کے وقتوں میں کسی وقت بنی تھی۔ حویلی کی منڈیروں کے کوئوں نے اللہ رکھے پانچ پشتیں پروان چڑھتے دیکھی تھیں۔ بیٹے تم پانچویں پشت میں ہو۔‘‘

’’بوجان، اس میں کوئوں کی کیا تخصیص ہے۔‘‘

’’بیٹے، کوے کی عمر لمبی ہووے ہے۔ سو برس میں اس کا ایک پَر سفید ہووے ہے۔ ویسے تو خدا تمہارا بھلا کرے زمین والا بھی جو سانپ والی کوٹھری میں رہوے تھا، سو برس سے زیادہ کی عمر کا تھا۔‘‘

’’کمال ہے بوجان اتنی عمر۔‘‘

’’ارے بیٹے اس زمانے میں تو آدمیوں کی عمریں بھی بہت ہوا کرے تھیں۔ اللہ بخشے تمہاری پر دادی جو تھیں۔ غدر کے قصّے تو ایسے سناوے تھیں جیسے کل کی بات ہو۔ انگریز جرمن کی لڑائی دیکھ کے آنکھیں موندی ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے پوری صدی دیکھی تھی اور ماشے اللہ چلتی پھرتی دنیا سے گئیں۔ آخر وقت تک دانت سلامت تھے۔ بس ایک دفعہ شکایت کی تھی کہ دانت جواب دے رہے ہیں۔ بھٹے کے دانے مجھ سے چبتے نہیں۔‘‘

بس بوجان اپنی رو میں چراغ حویلی کے اگلے پچھلے قصّے سناتی چلی گئیں۔ پہلی رات تو انہیں باتوںمیں کٹ گئی۔ اچھا خاصا رتجگا ہوگیا۔کہیں پچھلی رات کو سوئے ہیں اور صبح سویرے اُٹھ بیٹھے۔ کم از کم میری آنکھ تو تڑکے ہی کھل گئی۔ نئے گھر کی صبح بھی نئی نئی لگ رہی تھی اور آسمان کتنا تازہ نظر آرہا تھا۔ نکلتا سورج یوںدکھائی دیا جیسے آج ہی پیدا ہوا ہے۔ میں نے پورے گھر میں گھوم پھر کر اُوپر نیچے چڑھ اُتر کر جائزہ لیا کہ سورج اس گھر میں کس طرف سے نکلتا ہے اور پہلی کرن ہماری کون سی منڈیر پر چمکتی ہے۔ گھر میں یہ دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ آخر سورج سے بھی تو نباہ کرنا ہوتا ہے۔ نئے گھر میں قدم رکھنے کے ساتھ چاند، سورج، ستارے، آسمان، ہوا، بارش، سب ہی سے نئے سرے سے افہام و تفہیم کرنی ہوتی ہے۔ دھوپ چھائوں کا نقشہ سمجھنا ہوتا ہے۔ دیکھنا ہوتا ہے کہ دھوپ کس رنگ سے اُترتی چڑھتی ہے اور چھائوں کس طور پھیلتی سمٹتی ہے۔

اس ایک صبح پہ موقوف نہیں ان دنوں روز ہی صبح منہ اندھیرے میری آنکھ کھل جاتی۔ آنکھ کھلتی کہ فوراً ہی ساری نیند آنکھوں سے غائب ہو جاتی۔

زبیدہ کی خواہش تھی کہ ہمارے اس گھر کا کوئی نام بھی ہونا چاہیئے۔ کتنے نام تجویز ہوئے اور رد ہوئے۔ میں نے کہہ دیا تھا میںگھر کے نام کے ساتھ اپنا نام نتھی نہیں کروں گا۔ آخر ایک سیدھے سے نام پر اتفاق رائے ہوگیا۔ آشیانہ۔ اور اب میں اس گھر میں صبح ایسے کرتا جیسے پرندے آشیانے میں صبح کرتے ہیں۔ تڑکے آنکھ کھلتی۔ بس میں پھریری لے کے فوراً چھت پہ پہنچتا پھیلتے اُجالے اور نکلتے سورج کے عمل کا جائزہ لینے لگتا۔ وہ صبحیں کتنی نئی اور اجلی لگتی تھیں اور فضا میں کتنی شادابی ہوتی تھی۔ بس یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا نئی نئی پیدا ہوئی ہے یا میری نئے سرے سے پیدائش ہوئی ہے یا کہہ لیجئے کہ جیسے میری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ شادی کے بعد کمروں میں، برآمدوں میں صحن میں، بس پورے گھر میں ایک نئی مہک، نئی حرارت سرسراتی محسوس ہوتی ہے۔ جب آدمی اپنا نیا مکان بناتا ہے اس وقت بھی کچھ یہی کیفیت ہوتی ہے۔ کم از کم میں تو یہی محسوس کر رہا تھا کہ میری زمین سے نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ زمین کے ایک خوبصورت قطعہ سے۔ در و دیوار کے بیچ ایک نئی حرارت۔ کتنے زمانے کے بعد مجھے زمین سے وصل حاصل ہوا تھا اور آسمان سے شرفِ باریابی۔ وہ جو اس گھر میں قدم رکھتے ہوئے مجھے اُداسی نے آلیا تھا اور ایک تذبذب نے اس کے اب کوئی اثر آثار باقی نہیں تھے۔

اب میری سمجھ میں آرہا تھا کہ لوگ گلیوں سے نکل کر نئی آبادیوں، نئی ہائوسنگ اسکیموں کی طرف کیوں دوڑ رہے ہیں۔ پہلے تو میں اُسے نودولتئے پن کا مظاہرہ جانتا تھا۔ اب پتہ چلا کہ وہ گلیوں سے کیوں بیزار ہیں آگے لوگوں نے کچھ کھلے آسمان سے کچھ دشت کی پہنائیوں سے ڈر کر نگر آباد کئے، نگر میں پتلی پتلی گلیاں بنائیں، ان گلیوںمیں مکان اس طور بنائے کہ ایک دوسرے میں پیوست، منزل کے اُوپر منزل یوں انہوں نے اپنی دانست میں بے اماں اسماں سے امان حاصل کر لی اور زمین کی بے پناہ وسعتوں سے پناہ لے لی۔ مگر جب زمین و آسمان سے چھپ کر انہوںنے بہت دن گذار لئے تو پھر انہیں رفتہ رفتہ تنگ گلیوں اور اونچے مکانوں سے خفقان ہونے لگا۔ کیا مشکل ہے کہ نہ یوں چین ہے نہ ووں چین ہے۔ آدمی زمین کی وسعت اور آسمان کی لا محدودیت سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ گلیوں گھروں کی تنگی سے اسے خفقان ہوتا ہے۔ تو وسعت کے خوف کی منزل سے گذر کر اب ہم تنگی سے خفقان کی منزل میں ہیں۔ گلیوں سے کھلے علاقوں کی طرف لپک رہے ہیں اور کشادہ مکان بنانے میں مصروف ہیں۔ شاید اسی قسم کا کوئی خفقان ہو، یا کرائے کے مکانوں سے جوبے ٹھکانا ہونے کا احساس پیدا ہوگیا تھا۔ اس سے نجات پانے کی خواہش، یا محض ماں اور بیوی کا دبائو ہو، بہرحال وجہ کچھ بھی ہو میں نے مکان بنایا اور ایسے علاقہ میں بنایا۔ جو کھلا کھلا تھا۔ مجھے یہاں کشادگی محسوس کرکے خوشی ہو رہی تھی۔ ماں اور بیوی کو یہ سوچ کر خوشی ہو رہی تھی کہ اپنا مکان کھڑا ہوگیا اور جائداد بن گئی۔ کتنی خوش تھیں دونوں کہ جامہ میں پھولی نہیں سماتی تھیں۔ کس دھوم سے انہوں نے میلاد کا اہتمام کیا اور بالوشاہیاں بانٹیں۔ کھانہ دانہ الگ۔ اس روز خوب دیگ کھنکی اور کتنی چہل پہل رہی۔ بچّوں نے تو وہ چیخم دھاڑ مچائی کی میں تو پناہ مانگ گیا۔ پتہ نہیں رات کس وقت تک جاگ باگ رہی۔ میں تو سوگیا تھا۔

’’بوجان‘‘ آج ہمارے پچھواڑے پھانسیاں لگیں گی۔‘‘

’’اے دلہن، صبح ہی صبح کیسا منحسوس کلمہ منہ سے نکال رہی ہو۔‘‘

میں نے آدھے سوتے آدھے جاگتے یہ گفتگو سُنی۔ بات کا آگا پیچھا سمجھ میں نہیںآیا۔ پھانسیاں۔ کیسی پھانسیاں۔ باہر نظر ڈالی۔ اچھی خاصی دھوپ نکل آئی تھی۔ بس فوراً ہی اُٹھ بیٹھا۔ یوں تو جب سے میں اس گھر میں آیا تھا۔ سویرے منہ اندھیرے آنکھ کھل جاتی تھی مگر آج دیر سے آنکھ کھلی۔ شاید اس وجہ سے کہ رات دیر سے سویا تھا۔

منہ ہاتھ دھو کر جب ناشتہ کی میز پہ پہنچا تو زبیدہ نے ناشتہ چنتے چنتے خبر سنائی۔

’’اخلاق تم نے سنا۔ آج ہمارے پچھواڑے پھانسیاں لگ رہی ہیں۔‘‘

اب میں چونکا۔ زبیدہ کو غور سے دیکھا ’’پھانسیاں؟ کیسی پھانسیاں؟‘‘

’’جیسی پھانسیاں ہوتی ہیں۔‘‘

’’ہوش میں تو ہو۔‘‘

’’میں نے اپنے مغز سے اُتار کے تو بات نہیں کہی ہے۔ سارے محلے میں شور پڑا ہوا ہے۔ سُنا ہے کہ تختے تیار ہو رہے ہیں۔‘‘

بس اسی گھڑی پڑوس سے نصیبن بّوا داخل ہوئیں۔ التجا بھرے لہجہ میں بولیں۔ ’’بیگم صاحب جی، ذرا پھانسی کے تختے دیکھ لوں۔‘‘

’’نصیبن بوا، پھانسی کے تختے ہمارے گھر میں تو نہیں لگے ہیں۔‘‘

’’اے خدا نہ کرے کہ تمہارے گھر میں لگیں۔ میں تو یہ کہہ رہی تھی کہ تمہاری جو پچھلی دیوار ہے اس کے پرے تختے لگ رہے ہیں۔ کہو تو ذرا ادھروں جاکے جھانک کے دیکھ لوں۔‘‘

نصیبن بوا کے اس بیان سے زبیدہ پر انکشاف ہوا کہ پھانسی کے تختوں کا نظارہ تو اپنے گھر سے کیا جاسکتا ہے۔ بس ذرا پچھلے حصّہ میں جاکر دیوار سے جھانکنے کی ضرورت ہے اور اچانک اس نیک بخت کو اتنا شوق ہوا یا کہہ لیجئے کہ تجسّس ہوا کہ مجھے میرے حال پہ چھوڑ نصیبن بوا کو ساتھ لے پچھلے گوشے کی طرف چل دی۔

تھوڑی دیر میں واپس آئی، آنکھوں میں لذتِ دِید لئے ہوئے۔ ’’نصیبن بوا ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں۔ ارے یہ تو ہمارا بالکل پچھواڑہ ہے۔ دیوار سے ذرا جھانکو تو سامنے ہی تختے نظر آرہے ہیں۔ دو تو لگ گئے ہیں۔ تیسرا لگ رہا ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی جاکر۔‘‘

لیکن میرا ردعمل زبیدہ کے ردِعمل سے بالکل مختلف تھا۔ زبیدہ نے پھانسی کے تختوں کے بارے میں جتنی گرمجوشی دکھائی اتنا ہی میں سرد ہوتا گیا۔ ویسے تو میں پچھلے دن کے اخبار ہی میں یہ خبر پڑھ چکا تھا کہ تین پھانسیاں سرعام لگائی جانے والی ہیں تو اس اطلاع پر مجھے چونکنا تو نہیں چاہیئے تھا۔ شاید میں اس اطلاع پر نہیں چونکا تھا۔ جس اطلاع نے مجھے چونکایا اور پھر سرد کیا وہ یہ اطلاع تھی کہ یہ پھانسیاں میرے گھر کے بالکل قریب دی جانے والی تھیں۔ میں نے اخبارمیں خبر پڑھتے ہوئے اس پر دھیان ہی نہیں دیا کہ پھانسیوں کی جائے وقوع کون سی ہے۔ خبر میں یہ تفصیل تو دی ہوئی تھی کہ پھانسیاں جیل کے باہر لب سڑک دی جائیں گی۔ اس سے مجھے سمجھ لینا چاہیئے تھا کہ یہ واقعہ میرے گھر کے نواح میں گذرے گا۔ مگر میں نے ابھی تک اس بات پہ بھی دھیان کب دیا تھا کہ میرا یہ گھر جیل کے نواح میں واقع ہے۔ روز میں اس سڑک سے آنا جانا تھا۔ جو جیل کے عقب کی فصیل کے برابر برابر چلی گئی ہے۔ مگر مجھے یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ یہ سڑک میرے مکان کے عقب میں ہے کہ اپنی پچھلی دیوار سے جھانکوں تو یہ سڑک اور اس سے پرے جیل کی عقبی دیوار صاف نظر آئے گی۔ لیکن اگر یہ بات میرے دھیان میں ہوتی بھی تو میں خبر پڑھ کر یہ کیسے طے کر سکتا تھا کہ پھانسی کے تختے اسی عقبی دیوار کے سائے تلے میرے گھر کے رُخ پر نصب کئے جائیں گے اور اخبار میں تو سب ہی طرح کی خبریں آتی ہیں۔ قتل کی خبریں، اغوا کی خبریں، بم پھٹنے کی خبریں۔ مگر اخبار پڑھتے ہوئے ایک احساس یہ رہتا ہے کہ یہ سب واقعات ہم سے دور کہیں گذر رہے ہیں یہ کہ آج کی سب سے سنسنی خیز خبر کی جائے واردات عین ہمارے آشیانے کا پچھواڑہ ہوگا، یہ تو میں تصّور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

بہرحال میں اس سارے قصّے پر کچھ ایسا بے مزہ ہوا کہ زبیدہ کے اصرار کے باوجود میں اس طرف جانے اور دیوار سے جھانکنے پر رضامند نہ ہوا۔ بلکہ زبیدہ نے جتنا اصرار کیا اتنا ہی میں اس تجویز سے بیزار ہوتاگیا۔

’’اے ہے دیکھ تو لو کہ تمہارے گھر کی دیوار کے اس طرف ہو کیا رہا ہے۔‘‘

’’بس بیگم تم ہی دیکھو۔مجھے دفتر جانے میں پہلے ہی دیر ہوچکی ہے۔‘‘ اور میں ناشتہ کی میز سے اُٹھ ایک بے تعلقی کے ساتھ دفتر جانے کی تیاری کرنے لگا۔

ایسے سنسنی خیز واقعہ سے میری بے تعلقی کی وجہ ایک اور بھی تھی۔ میں جس محلہ میں رہا محلہ والوں کی سرگرمیوں اور دلچسپیوں سے میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ الگ ہی رکھا۔ گلی محلہ کے لوگوں  کا کیا ہے، ذرا کوئی بات ہو ان میں ایک گرمی آجاتی ہے۔ خوشگوار واقعہ ہو یا ناخوشگوار، دونوں صورتوں میں ان کے یہاں ایک زبردست تجسّس پیدا ہوجاتا ہے اور چہ میگوئیاں ہونے لگتی ہیں۔ جس محلہ میں بھی رہا میں نے یہی دیکھا اور ہمیشہ یہ طور برتا کہ کبھی ان کے اس قسم کے ذوق و شوق میں ان کا شریک نہیں بنا۔ جیسے میں ایسی باتوں سے بہت بالا ہوں۔

دفتر پہنچا تو دیکھا کہ میز میز وہی ایک موضوع گفتگو ہے۔ دفتر کا کام کم ہوا پھانسیوں پر گفتگو زیادہ ہوئی۔ ہر کلرک، ہر چپراسی بیتاب نظر آتا تھا کہ کسی طرح دفتر ختم ہو اور وہ اُڑ کر جائے واردات پر پہنچ جائے۔ ایسے بھی تھے کہ اُلٹا سیدھا بہانہ کرکے دفتر کے ختم ہونے سے پہلے ہی کھسک لئے۔ ایسے بھی تھے جن کا خیال تھا کہ دفتر میں آج ہاف ڈے ہونا چاہیئے۔

’’بھائی وہ کس خوشی میں؟‘‘

’’پھانسیاں دیکھنے جانا ہے جی۔ اگر پھانسیوں کے بعد ہم پہنچے تو پھر وہاں جانے کا فائدہ کیا ہوگا۔‘‘

کن مشکلوں سے لوگوں نے دفتر کا وقت گذارا۔ اور جب دفتر ختم ہوا تو کتنی بیتابی سے دفتر سے دوڑ لگائی ہے۔ لگتا تھا کہ سارا دفتر اسی طرف ڈھل جائے گا۔

گھر واپس جانے کے لئے مجھے اپنا راستہ بدلنا پڑا۔ جیل والی سڑک تو اتنی بھر چکی تھی کہ ادھر سے سکوٹر پر گذرنا مجھے سخت دشوار نظر آیا۔ سواریوںکا ایک سیلاب اُمنڈا ہوا تھا۔ ٹریفک کے سپاہی اپنی اچھی خاصی نفری کے باوجود ٹریفک کو کنٹرول کر نہیں پارہے تھے۔ ایک تو ٹریفک کا شور، پھر ٹریفک والوں کی سیٹیوں کا شور، ایک طوفان اُٹھا ہوا تھا۔

کتنے آڑے ترچھے راستوں سے گھوم پھر کر میں اپنے گھر پہنچا۔ مگر اپنی گلی میں بھی آج گاڑیوں کی ایک قطار لگی ہوئی تھی۔ گھر میں قدم رکھا تو دیکھا کہ زبیدہ حواس باختہ ہے۔

’’زبیدہ پھانسیاں جنہیں لگ رہی ہیں انہیں لگ رہی ہیں، تمہیں کیا ہوا۔‘‘

’’لوگوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’کہتے ہیں کہ چھت پہ جانے دو۔ وہاں سے پھانسیاں دیکھیں گے۔‘‘

’’نہیں چھت پر کوئی نہیں چڑھے گا۔‘‘

’’میںنے تو بہت منع کیا مگر کمبخت بعض تو ایسے ڈھیٹ نکلے کہ میں چلاتی رہ گئی۔ انہوں  نے ایک نہ سنی۔ چھت پر چڑھ گئے۔‘‘

میں نے ڈانٹ پھٹکار کر انہیں نیچے اُتارا اور گھر سے نکالا۔

’’ادھر کتنے بچے دیوار پہ چڑھے بیٹھے ہیں۔ میری تو سنتے نہیں۔ ان سے بھی تم ہی نبٹو۔‘‘

اور میں نے ادھر جاکر بچوں کے کان اینٹھے۔ ڈانٹ ڈپٹ کرکے انہیں بھگایا۔

پھر محلہ کے باہر کے لوگوں سے جو لگاتار چلے آرہے تھے نبٹا۔ پتہ نہیں شہر کے کس کس کونے کھدڑے سے لوگ نکل نکل کر آرہے تھے۔ ان کا تانتا ٹوٹتا ہی نہیں تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد دروازے پر جانا نووارد کی التجا اور ٹکا سا جواب دے دینا کہ نہیں صاحب یہ گھر ہے تماشا گاہ نہیں ہے۔

ایک دفعہ پھر دروازے کی گھنٹی بجی اور ساتھ میں کسی نے دھڑ دھڑ دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ میںنے جاکر دروازہ کھولا۔ اجنبی کو دیکھا۔ روکھے پن سے پوچھا۔ ’’فرمایئے۔‘‘

لجاجت سے بولا ’’اگر آپ تھوڑی مہربانی کریں اور اک ذرا اجازت دیدیں تو میں آپ کی چھت ......‘‘

میںنے بے صبری سے اس کی بات کاٹی۔ ’’آپ کو پتہ ہونا چاہیئے کہ یہ گھر ہے۔ یہاں شریف لوگ رہتے ہیں۔ آپ لوگوں نے اس گھر کو کیا سمجھا ہے۔‘‘

’’دیکھئے، آپ بُرا مان گئے۔ قصّہ یہ ہے کہ میں بہت دور سے آرہا ہوں۔‘‘

’’بہت دور سے؟ کہاں سے؟‘‘

’’فیصل آباد سے۔‘‘

’’اسی کام کے لئے آئے ہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔ یہی سوچا تھا کہ ذرا آئوٹنگ ہو جائے گی۔ پھانسیاں بھی دیکھ لیں گے۔ یہاں آکر دیکھا تو یہاں سے وہاں تک آدمی ہی آدمی ہے۔ کہیں قدم ٹکانے کو جگہ نہیں مل رہی۔ میں نے سوچا کہ آپ سے اپیل کر دیکھوں کہ آپ اپنی چھت سے مجھے دیکھنے کی اجازت دے دیں۔ نہیں تو میرا فیصل آباد سے آنا بیکار جائے گا۔ جانے کتنے ضروری کام چھوڑ کے آیا ہوں۔‘‘

’’جی نہیں‘‘۔ میں نے قطعی جواب دیا اور دروازہ بند کر لیا۔ مگر ابھی دروازہ بند کیا ہی تھا کہ پھر گھنٹی بج گئی۔ بس پھر تو میرا پارہ بالکل چڑھ گیا۔ بھنا کر دروازہ کھولا جیسے چھوٹتے ہی آنے والے پر جھپٹ پڑوں گا۔ مگر سامنے اپنا کامریڈ کھڑا تھا۔ میں حیران رہ گیا۔ ’’کامریڈ، تم بھی؟‘‘

’’ہاں یار، میں نے سوچا کہ تماشا ہے تو تماشہ ہی سہی۔‘‘

میں نے اسے اندر بلاتے ہوئے اطلاع دی کہ میں نے کسی کو چھت پر چڑھنے نہیںدیا۔ نہ دیوار سے جھانکنے کی اجازت دی ہے۔

’’کون بھڑوا تمہارے گھونسلہ کو کھوندنے اور دیوار کو پھاندنے آیا ہے۔‘‘ کامریڈ نے ہمارے آشیانے کو گھونسلہ کہنا شروع کر دیا تھا۔

’’مگر پھر تم پھانسیوںکا تماشہ کیسے دیکھو گے؟‘‘

’’کامریڈ، تماشہ تو میں دیکھتا ہوا آرہا ہوں۔ لوگ پھانسیوں کا تماشا دیکھنے کے لئے اِدھر ڈُھل رہے ہیں۔ میں پھانسیاں دیکھنے والوں کا تماشا دیکھتا دیکھتا یہاں چلا آیا۔ کامریڈ بہت خلقت اُمنڈی ہوئی ہے۔

میں نے جل کر کہا ’’کامریڈ، یہ سب سالے تمہارے عوام ہیں۔ جن کا تم اُٹھتے بیٹھتے قیصیدہ پڑھتے ہو۔‘‘

کامریڈ نے میری بات کو سنی ان سنی کر دیا۔ کہنے لگا۔ ’’میں کہتا تھا تو تمہیں یقین نہیں آتا تھا۔ اب تو تم اندازہ کر سکتے ہو کہ کوڑے لگنے کے موقع پر تماشا دیکھنے کے لئے کتنے لوگ جمع ہوئے ہوں گے۔‘‘

’’کمال لوگ ہیں۔‘‘

’’اس شہر کے لوگ۔ کہتے ہیں کہ جب نادر شاہ نے دلّی میں قتل عام کا حکم دیا اوریہ خبر یہاں پہنچی تو ایک زندہ دل نے دوسرے سے کہا کہ چلو چلئے۔ چل کر دلّی میں قتلام کا تماشہ دیکھیں۔‘‘

اسی گھڑی زبیدہ گھبرائی ہوئی آئی۔ ’’اجی کیا تم نے گیٹ کھول دیا ہے۔

’’نہیں تو۔‘‘

’’چھت پہ تو لوگ چڑھے بیٹھے ہیں۔ کمبخت چھت ہی کو نہ لے بیٹھیں۔ اِدھر دیوار پہ بچّے لدے ہوئے ہیں۔ دیوار آج ضرور بیٹھ جائے گی۔‘‘

میں اُٹھنے لگا تا کہ کامریڈ نے ٹوک دیا۔ ’’بیٹھ جائو کامریڈ۔‘‘

’’نہیں یار، ان لوگوں کا کچھ انتظام کرنا پڑے گا۔‘‘

’’ان لوگوں کا اس وقت کوئی انتظام نہیں ہوسکتا۔‘‘

’’کیوں نہیں ہوسکتا۔‘‘

’’اس وقت لوگوں کا ریلا آیا ہوا ہے۔ جب لوگوں کا ریلا آتا ہے تو پھر تم جیسے بورژوا لوگ اُسے نہیں روک سکتے۔‘‘

میں نے کامریڈ کو طنزیہ نظروں سے دیکھا۔

’’ہاں ہاں میں سمجھ گیا۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ آج ریلا غلط آیا ہے۔ کل کو صحیح آئے گا۔‘‘ کامریڈ نے فوراً ٹکڑا لگایا۔

میں بے ساختہ ہنس پڑا۔ ’’تم لوگ خیالی پلائو پکانے میںجواب نہیں رکھتے۔‘‘

گھنٹی پھر بجی۔ میں نے جاکر گیٹ کھولا تو ایک بوڑھیا ایک ننّھےبچّے کا ہاتھ پکڑے ہے کہ پھانسئیں دیکھوں گا۔ تو پُتر ذرا ایس بچّے کو دکھانا ہے۔‘‘

بڑی بی نے اتنی لجاجت سے بات کہی کہ میرا دل واقعی پسیج گیا۔ ’’جائو بڑی بی تم بھی تماشہ دیکھو، اپنے پوتے کو بھی دکھائو۔‘‘

بڑی بی نے مجھے بہت دعائیں دیں اور پوتے کا ہاتھ پکڑے پکڑے پچھواڑے کی دیوار کی طرف چلی گئیں اور نصیبن بّوانے تو صبح ہی اپنا حق منوا لیا تھا۔ اب انہیں مجھ سے اجازت لینے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ بے تکلف آئیں اور زبیدہ کو ٹہوکا۔ ’’اے بیگم صاب پھانسیوں کا ویلا ہو رہا ہے۔ یہ کام کا کون سا وقت ہے۔‘‘ زبیدہ پہلے ہی عجلت میں تھی۔ نصیبن بوا کے فقرے نے اس پر قمچی کا کام کیا۔ لپک جھپک چائےٹرے میں سجا میرے سامنے رکھ دی۔ ’’آپ چائے پئیں۔ میں ذرا پھانسیاں دیکھ آئوں۔‘‘ اور یہ جا وہ جا۔

زبیدہ کے جانے کے ساتھ ہی میں نے پھانسیوں کی طرف سے سمجھ لیجئے کہ ذہنی فراغت پالی۔ ’’یار کامریڈ، چھوڑ اس قصّے کو پھانسیاں تو لگتی رہیں گی۔ آئو ہم اپنی باتیں کریں۔‘‘

اشارے کی دیر تھی۔ بس کامریڈ رواں ہوگیا۔

ایک دم سے کتنی باتیں کر ڈالیں۔ رُکا ہوا بھی تو کتنے دنوں کا تھا۔ ایک زمانے میں روز ملتا تھا اور کتنا بولتا تھا۔ اس پہ کیا موقوف تھا سب ہی دوست روز اکٹھے ہوتے تھے۔ فاروق، ظہور، ممتاز اور ہم سب دوست اپنے کامریڈ کے حساب سے بورژوا رجعت پسند اور زوال پسند اور نہ جانے کیا کیا تھے۔ کامریڈ کرتا ہوگا کسی زمانے میں پارٹی ورک۔ مگر نہ اَب پارٹی تھی اور نہ وہ ورکر تھا۔ بس ہمارے درمیان پھنسا ہوا تھا۔ باتیں کرتا تھا اور مستقل لیکچر دیتا تھا کہ باتیں  کرنے اور کتابیں پڑھنے میں کچھ نہیں رکھا۔ ایکشن ہونا چاہیئے ہم اس کے آنے سے پہلے ظہور کو انقلابی سمجھا کرتے تھے کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے مارکس کا حوالہ دیتا تھا اور ہمیں موقع پرست ثابت کیا کرتا تھا۔ مگر کامریڈ نے آکر اسے بھی ہمارے خانے میں ڈال دیا۔

’’یار کامریڈ، ظہور کے بارے میں تو تم یہ نہیں کہہ سکتے۔ وہ تو تمہاری آئیڈیالوجی کا ماننے والا ہے۔‘‘

’’ماننے سے کیا ہوتا ہے۔ اصلی چیز ایکشن ہے۔ ایکشن۔ بھائی سے مارکسیت پہ باتیں کروا لو۔ ایکشن کے نام صفر ہے۔‘‘

بس اسی رنگ میں بولتا چلا جاتا۔ ایک ایک دوست کا احتساب کرتا۔ دوستوں کی منڈلی بکھری تو وہ بھی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ خیر وہ مہینے پندھرواڑے میں صورت ضرور دکھا جاتا تھا۔ دوسرےتو بالکل ہی نظروںسے اوجھل ہوگئے۔ بس تتر بتر ہوگئے۔ کوئی دور کے دیسوںمیں نکل گیا۔ کوئی ملک ہی میں رہ کر غمِ روزگار کی غذا بن گیا۔

میں نے پوچھا۔ ’’یار کامریڈ، کچھ ممتاز کا بھی اتا پتہ ہے۔ کہاں ہے آج کل؟‘‘

’’اسی شہر میں۔‘‘

’’اچھا؟ ...... آگیا واپس؟ عجیب آدمی ہے۔ آکر بتایا بھی نہیں۔‘‘

’’اب وہ اونچی ہوائوںمیں ہے۔‘‘

’’اچھا؟‘‘

’’ہاں۔ خیر میں نے تو اس کے مزاج درست کر دیئے۔ پہلے تو وہ نیڑے ہی نہیں لگنے دے رہا تھا۔جب میں نے بات کی یہی کہتا کہ یارمیں ابھی پھنسا ہوا ہوں۔ دفتر قائم کر لوں۔ پھر بات ہوگی۔میں نے دل میں کہا کہ کامریڈ، یہاںسیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلے گا۔ تو بس ایک دن میں نے اُسے دھر لیا کہ پیارے شیوخ کے بوٹوںکے تسمے باندھ باندھ کے تو بھی فل بوٹ بن گیا ہے۔ اس حرام کی کمائی میں سے کچھ زکوٰۃ وکات نکال دے۔ بس جی سیدھا ہوگیا۔ میں نے اس سے تھوڑا بہت اینٹھ ہی لیا۔ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی۔‘‘

کامریڈ جاری تھا کہ زبیدہ آن پہنچی۔ آتے ہی اطلاع دی۔ ’’لگ گئی پھانسی؟

’’لگ گئی۔‘‘ کامریڈ اپنی باتیں بھول کر زبیدہ کی طرف متوجہ ہوگیا ’’تینوں کو؟‘‘

’’ہاں تینوں کو۔ ابھی تک لٹکے ہوئے ہیں۔‘‘

’’اچھا۔ چلو ٹنٹا مُک گیا۔‘‘

باہر یک دم سے ٹریفک کا شور ہوا۔ جیسے سینما ٹوٹا ہو۔ چھت پہ چڑھے ہوئے لوگ اور دیوار پہ لدے ہوئے بچے بھی اتر اتر کے جانے لگے۔ بوڑھیا بھی پوتے کو اپنی انگلی پکڑائے واپس ہوتی نظر آئی۔ ’’ہائے بدنصیب جوان جہان دنیا سے گئے۔‘‘ اور افسوس کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔

’’اچھا میں چلا۔‘‘ کامریڈ کہ بولتے بولتے چپ ہوگیا تھا ایک دم سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’کیوں؟‘‘

’’بس، کھیل ختم پیسہ ہضم۔ پھر ملیں گے۔

اب شام ہونے لگی تھی۔ باہر ٹریفک کا شور دھیما پڑگیا تھا۔ اِدھر چھت پہ بھی اب کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ دیوار پہ بھی کوئی بچّہ دکھائی نہیں رے رہا تھا۔ زبیدہ نے ایک مرتبہ پھر دیوار کا رُخ کیا۔ بوجان نے ٹوکا۔ ’’دلہن دونوں وقت مل رہے ہیں۔ اب اس طرف مت جائو۔‘‘

’’بس بوجان ابھی آئی۔‘‘

اور واقعی زبیدہ جلدی ہی واپس آگئی۔ واپس آکر اطلاع دی۔ ’’ابھی تک لٹکے ہوئے ہیں۔‘‘

’’ہوں‘‘ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں اس پر اپنے ردِّعمل کیسے اظہار کروں۔

’’اب جاکے دیکھ لو۔ اب تو سب لوگ چلے گئے ہیں۔ ہماری دیوار سے سب کچھ نظر آتا ہے۔‘‘

’’اس میں دیکھنے کی کون سی بات ہے۔ میں نے اک ذرا اپنی بے تعلقی ظاہر کرتے ہوئے کہا اور اندر کمرے میں چلا گیا۔ وہاں دیکھا کہ بوجان جانماز پہ بیٹھی ہیں اور دعا کے لئے انہوں نے دونوں ہاتھوں سے دوپٹے کا پورا آنچل پھیلا رکھاہے۔

نیند تو آنہیں رہی تھی۔ میں نے سوچا لائو میاں جان کے کاغذات ہی لگے ہاتھوں ترتیب دے لیں۔ اُس روز کے بعد میں نے اس مسودے کو ہاتھ ہی نہیں لگایا تھا۔ خیر لے کر تو بیٹھ گیا اور بہت دیر تک اُلٹ پَلٹ کرتا رہا مگر دماغ اس وقت حاضر نہیں تھا۔ رکھ دیا کہ کل پرسوں اطمینان کے ساتھ اسے پڑھوں گا۔

کرسی سے اُٹھ کر پلنگ کی طرف بڑھا۔ کہیں برآمدے سے باہر صحن میں نظر جا پڑی دیکھا کہ بوجان کھڑی ہیں۔ میں حیران کہ اس وقت صحن میں کھڑی کیا کر رہی ہیں۔ غور سے دیکھا تو منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہی تھیں۔ جب پڑھ چکیں اور اندر آنے لگیں تو میں نے پوچھا۔ ’’پوجان، کیا پڑھ رہی تھیں۔‘‘

’’بیٹے حصّار کھینچ رہی تھی۔ اللہ اس گھر کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔‘‘

میں اب سونے کے موڈ میں تھا۔ خیر جاتو لیٹا مگر نیند نہیں آئی۔ آئی۔ جھپکی آئی بھی تو دور سے آئی ایک آواز نے اسے منتشر کر دیا۔ میں نے باہر برآمدے میں نکل کر پچھلی دیوار سے پرے نظر دوڑائی۔ آواز اسی طرف سے آرہی تھی۔ میں نے اب سے پہلے کبھی اس طرف کا دھیان سے جائزہ ہی نہیں لیا تھا۔ جیل کے احاطہ کے بیچ ایک اونچی برجی جس میں پہریدار ایک ہاتھ میں لالٹین دوسرے ہاتھ میں موٹا سالٹھ لئے کھڑا تھا۔ بار بار لالٹین اونچی کرکے ہلاتا، لٹھ فرش پر پٹکاتا اور آواز لگاتا۔ ’’خبردار۔ ہوشیار۔‘‘

اِس آواز نے مجھ پہ عجب اثر کیا۔ دل جیسے بیٹھ رہا ہو۔ تھوڑا تھوڑا ڈر۔

میں واپس آکر آن لیٹا۔ لیکن کھٹ پٹ سے زبیدہ کی آنکھ کھل گئی۔ ’’اخلاق آج تم سو نہیں رہے۔‘‘

’’نیند نہیں آرہی۔‘‘ اور ذرا تائل کے بعد آہستہ سے

’’زبیدہ۔‘‘

’’ہاں۔ کیا بات ہے۔‘‘

’’زبیدہ گھر ہم نے بنا تو لیا ہے مگر ......‘‘

زبیدہ نے چکرا کر مجھے دیکھا۔ ’’پھر؟‘‘

’’پھر میں یہ سوچ رہا تھا۔‘‘ میں نے رُکتے رُکتے آخر کہہ ہی ڈالا۔ یہ گھر تو بالکل جیل کے سائے میں ہے۔‘‘

زبیدہ نے غور سے مجھے دیکھا۔ ’’کوئی خواب دیکھا ہے؟‘‘

’’خواب؟...... نہیں۔ بس یوں ہی خیال آگیا۔‘‘

’’کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔ بہت رات ہوگئی ہے۔ سو جائو۔‘‘

میں چپ ہوگیا۔ آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ زبیدہ نے کروٹ لی۔ اور خراٹے لینے شروع کر دیئے۔